| کبھی آؤ |
| یہ رسمیں توڑ دیتے ہیں |
| دلوں کو موڑ لیتے ہیں |
| نئے رشتوں کی زنجیریں |
| قسم سے توڑ ڈالو تم |
| چلو یہ چھوڑ دیتے ہیں |
| کبھی آؤ |
| بہت سی باتیں کرتے ہیں کہ دل کا بوجھ ہلکا ہو |
| مجھے کہہ دو، کہاں ہیں اب |
| وہ گزرے دن، گئی شامیں |
| جہاں ہم بھی خوشی سے دوڑ پڑتے تھے |
| گلےلگتے ہی شکوے بھول جاتے تھے |
| چلو یہ چھوڑ دیتے ہیں |
| کبھی آؤ |
| تو وہ بھی یاد کرتے ہیں |
| جو تھی بے چھین سی راتیں |
| بچھڑنے کی وجہ باتیں |
| سسکتے دل کو تم بھی تھام سکتے تھے |
| چھلکتی آنکھ کو بھی انگلیوں سے پونچھ سکتے تھے |
| چلو یہ چھوڑ دیتے ہیں |
| ستم کی بات کا یہ رخ یہیں سے موڑ لیتے ہیں |
| ترا پتھر سا دل بھی ہو تمہیں ہم توڑ دیتے ہیں |
| انا کا بت بڑا ہم توڑ دیتے ہیں |
| تمہیں واپس دلاتے ہیں |
| محبت سے عقیدت سے |
| وہ اپنے خون کے رشتے |
| جو یہ بے لوث نغمے گاتے، کہتے ہیں |
| مری ماں خون تیرا ہے |
| ازل سے ہی وہ سچا ہے |
| پسینہ باپ کا بھی بیش قیمت تھا |
| جو اس رشتے کی بنیادوں میں شامل ہے |
| دلوں پر راج کرتے ہیں |
| وہ جن کے ساتھ ہنستے ہیں |
| انہی کے ساتھ روتے ہیں |
| یہ بندھن صاف بندھن ہے |
| چلو یہ بات کرتے ہیں |
| یہ بندھن جوڑ لیتے ہیں |
| شُگن لینا بھی ہوگا تو |
| کسی ہندو سے کہہ کر ناریل بھی پھوڑ لیتے ہیں |
| مسلمانی کی خاطر بھی |
| کسی ملا سے کہہ کر اس سے بسم اللہ کہلوا کر |
| انہیں ہم آج دل سے جوڑ لیتے ہیں |
| مروّت کی یہ چادر اوڑھ لیتے ہیں |
| کبھی آؤ |
| وہ رشتہ خون کا رشتہ |
| وہیں سے جوڑ لیتے ہیں |
| یہ رسمیں توڑ دیتے ہیں |
| دلوں کو موڑ لیتے ہیں |
| ازل سے ہی جو سچا ہے |
| وہ رشتہ جوڑ لیتے ہیں |
| کبھی آؤ |
| کبھی آؤ |
معلومات