رازِ الفت کی گرہ کھولنے کب دیتا ہے
مجھ کو ہر بار صنم بولنے کب دیتا ہے
سچ کی کڑواہٹوں کا میں بھی بہت عادی ہوں
وہ مجھے کانوں میں رس گھولنے کب دیتا ہے
خوش تو ہو جاؤں اگر حد سے گزر جاؤں میں
وہ کوئی موتی مجھے رولنے کب دیتا ہے
ڈھل کے عنوان بدلتے رہے ہیں سب چہرے
اب یہاں کون وہاں ڈولنے کب دیتا ہے
صرف نظروں سے کتب دیکھ کے مشکل ہوگی
مذہبِ عشق سبق تولنے کب دیتا ہے
اس کے چہرے پہ ہنسی ہے تو بناوٹ کی کیوں
چپ ہے ظاؔہر بھی وہ اب بولنے کب دیتا ہے

0
109