| یہ سلسلہ دیر تک، ہر شام چلتا رہا |
| ہر تذکرے میں وہیں، اک نام چلتا رہا |
| اک چاند چہرہ بنا ، خوابوں میں ڈیرہ ڈلا |
| شب بھر رہی چاندنی، الہام چلتا رہا |
| ہے گلشنوں کا نگر، بنتا ہوں نورِ نظر |
| یہ کون سا خواب ہے، ابہام چلتا رہا |
| یہ محوروں کا سفر، صد ہا مبارک تمہیں |
| چرچہ ترا ہر گلی، ہر بام چلتا رہا |
| ٹوٹے ستارے گرے ، اُس رات کو چاند بھی |
| محوِ تماشا رہا ، یہ کام چلتا رہا |
| رسوائیاں ہیں بہت، پَر ڈگمگائے نہیں |
| ہنستے رہے پیار کا، پیغام چلتا رہا |
| اب شاعری کا ہوا، ہر لفظ نوحہ کناں |
| ہر اک نئے شعر میں، یہ عام چلتا رہا |
| بدنامی کی ہے غرض ،تو اب رقیبوں کہو |
| عاشق میں جب سے ہوا، بد نام چلتا رہا |
| بیماری کا ہے اثر، یا ہے حقیقت کوئی |
| تم ساتھ ہو نیند میں، سو گام چلتا رہا |
| ہر سو پریشانیاں، چھائے ہوئے ہیں ستم |
| کیا دل فگاری سے اب ، اکرام چلتا رہا؟ |
| ہے عشق یہ قیمتاً، ظاؔہر خریدو اِسے |
| یوں عشق زادہ بنا، تو دام چلتا رہا |
معلومات