ذرا سا اترا ہے چہرہ نہ دیکھو
ہماری چال ہے مہرا نہ دیکھو
نہ مجھ سے ہو سکے گی سرد مہری
مرے اطراف کا کہرا نہ دیکھو
عجب سی منطقی میری ڈگر ہے
پرائے ہاتھ میں زہرہ نہ دیکھو
سناؤ حالِ دل کیا بےبسی ہے
کہا اب اس قدر گہرا نہ دیکھو
نہیں دنیا کی چاہت کچھ نہیں ہے
یہاں میں کس قدر ٹھہرا نہ دیکھو
گدا کشکول کا سینہ بڑا ہے
فلک کی مانگ ہے صحرا نہ دیکھو
کمانا غم کی دولت آگہی سے
زیاں میں فائدہ تہرا نہ دیکھو
بقا کی زندگی ہے میری منزل
کفن لہرا قبا لہرا نہ دیکھو
کوئی یہ تاب کیسے رکھ سکے گا
شبِ مہتاب کا سہرا نہ دیکھو
تمھیں کیا چاہیے ظاہر بتاؤ
ہوا ہر غم ترا دہرا نہ دیکھو

0
76