ہم اہلِ ذوق اہلِ قلم اُن سے روٹھ کر
بکھرے پڑے ہیں کاغذوں پہ غم سے ٹوٹ کر
ہم کو بھی یہ گمان تھا دھوکہ نہیں ہوا
یہ بھی فقط خیال بنا دل کو لوٹ کر
کچھ موتی چن لیے تھے سرِ راہ ہم سفر
سچ تو یہی ہے آنسو تھے رویا جو پھوٹ کر
کاغذ کے پیرہن پہ کہیں خوں بکھیرتا
مارا گیا ہے سوچ کے دامن کو کوٹ کر
ہم داغ دار دل سے بھی کیا مسکراتے اب
اس کا قصور ہے جو بھی لوٹے کھسوٹ کر
ظاہر ہمیں بھی روگ نے لاچار کر دیا
جیسے کبھی خزاں میں گرے برگ ٹوٹ کر

0
56