سب غم بھلا کے یار صدا کیوں نہیں دیتے
اس عشق کو بے مول شفا کیوں نہیں دیتے
یہ کیا کہ گلی دیکھ لی جلوہ نہیں دیکھا
انگارے کو بھڑکانے ہوا کیوں نہیں دیتے
ٹکڑوں میں مجھے کاٹ کے لے جانا بُرا ہے
"اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے"
یہ بات انہیں پوچھو کہ جب قتل کیے ہیں
بدلے میں وہ اب خون بہا کیوں نہیں دیتے
دل کی کلی دوبارہ کبھی شوخ ہو رنگیں
مُسکا کے اسے بادِ صبا کیوں نہیں دیتے
ظاہر اسے کہہ دینا سَرِ عام دغا دے
اور پوچھ وہ اوروں کو دغا کیوں نہیں دیتے

60