خود سے جب ہم کلام ہوتی ہے
ہر گھڑی تیرے نام ہوتی ہے
درد اب اور بڑھ گیا ہوگا
غم سے بیمار شام ہوتی ہے
زندگی سے میں خوش نہیں ہوتا
سانس کی بس غلام ہوتی ہے
میرے محبوب یوں نہ جاؤ نا
ہجر حبسِ دوام ہوتی ہے
عاشقوں کی طلب محبت ہی
جب تلک نا تمام ہوتی ہے
آنکھ غیرت سمیٹ لے جب بھی
بھوک سے تب مدام ہوتی ہے
دکھ سہے درد سے ہوئے رنجور
نیند شب بھر حرام ہوتی ہے
اس کو بھی کچھ دلاسہ دے ظاہر
دل شکستہ مدام ہوتی ہے
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعِلن فِعْلن

0
126