| غم کی قربت سے یہ آثار نظر آئے ہیں |
| غم کے وارث سبھی غمخوار نظر آئے ہیں |
| گریہ کیا ضبط کروں ضبط نہ ٹوٹے کیسے |
| آج چہرے بڑے بیمار نظر آئے ہیں |
| منطقی ربط کی دیواریں عبوری سمجھو |
| دل میں آئے کھڑے سرکار نظر آئے ہیں |
| تھی بہت چاہ رقیبوں کی وہ پوری ہوگی |
| یار ہم سے رجے بیزار نظر آئے ہیں |
| کچھ بھلے لوگوں کی عزت نہ رہی عظمت بھی |
| دام لگ کر سرِ بازار نظر آئے ہیں |
| آنکھ بھر آئی بہت ظلم سہے دنیا نے |
| لٹکے سر ہی سرِ دیوار نظر آئے ہیں |
| شب نکل جائے یہ محرومی نہیں جائے گی |
| ہجر کی شب ہے وہ بیمار نظر آئے ہیں |
| موت کا وقت ہے اوسان خطا ہیں لوگوں |
| اڑ گئے رنگ وہ رخسار نظر آئے ہیں |
| توبہ ظاؔہر وہ گناہوں کا کریں گے کیسے |
| آخری وقت میں لاچار نظر آئے ہیں |
| رحیم اللّٰہ ظاؔہر |
معلومات