بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
یہ خراباتیانِ خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


1
5642
دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
مِلا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا
جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیئے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دو پہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن


4
3924
کہوں کیا رنگ اس گل کا، اہا ہا ہا اہا ہا ہا
ہوا رنگیں چمن سارا، اہا ہا ہا اہا ہا ہا
نمک چھڑکے ہے وہ کس کس مزے سے دل کے زخموں پر
مزے لیتا ہوں میں کیا کیا، اہا ہا ہا، اہا ہا ہا
خدا جانے حلاوت کیا تھی آبِ تیغِ قاتل میں
لبِ ہر زخم ہے گویا، اہا ہا ہا، اہا ہا ہا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


14
3128
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجیے؟ ہم نے مدعا پایا
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، دردِ بے دوا پایا
دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

فاعِلن مفاعیلن فاعِلن مفاعیلن


1
3887
اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا
آمدِ دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سرِ شام رکھ دیا
شدتِ تشنگی میں بھی غیرتِ مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا

مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن


10
3473
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
یہی تو ہیں دو ستُونِ محکم انہی پہ قائم ہے نظمِ عالم
یہی تو ہے رازِ خُلد و آدم ،نگاہ میری، شباب تیرا
صبا تصدّق ترےنفس پر ،چمن ترے پیرہن پہ قرباں
شمیمِ دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا

مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن


3
2872
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے​
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے​
​ پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے​
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے​
​ محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے​
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دِکھلا دے​

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن


3
3142
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1126
ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائيں گے راہِ خدا، ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حسابِ خوں بہا ، ایسے نہیں ہوتا
جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


3
3164
حیرت ہے، آہِ صبح کو ساری فضا سنے
لیکن زمیں پہ بت، نہ فلک پر خدا سنے
فریادِ عندلیب سے کانپے تمام باغ
لیکن نہ گل، نہ غنچہ، نہ بادِ صبا سنے
خود اپنی ہی صداؤں سے گونجے ہوئے ہیں کان
کوئی کسی کی بات سنے بھی تو کیا سنے

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


2
2501
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
عشق پیچے کی طرح حسن گرفتاری ہے
لطف کیا سرو کی مانند گر آزاد رہو
ہم کو دیوانگی شہروں ہی میں خوش آتی ہے
دشت میں قیس رہو کوہ میں فرہاد رہو

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1110
کس سے اظہار مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے
ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک
آپ کیجے تو کیا کیا کیجے
آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1279
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


818
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
ہے وہ جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


660
ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں
اے خوش خرام پاؤں کے چھالے تو گن ذرا
تجھ کو کہاں کہاں نہ پھراتا رہا ہوں میں
اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لیے
پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


1435
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے
رنگ موسم ہے اور باد صبا
شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے
فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1502
تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے
تیرے ساتھ تری یاد آئی کیا تو سچ مچ آئی ہے
شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے
اس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس
جب اس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


1201
ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
کوئی خاموش ہو گیا ہے کہیں
ہے کچھ ایسا کہ جیسے یہ سب کچھ
اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے کہیں
تجھ کو کیا ہو گیا کہ چیزوں کو
کہیں رکھتا ہے ڈھونڈھتا ہے کہیں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


578
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتل عام کر رہے ہیں
داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
997
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1306
آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا
وہ ہماری طرف نہ دیکھ کے بھی
کوئی احسان دھر گیا ہوگا
خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہوگا

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
636
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں
روح نے عشق کا فریب دیا
جسم کو جسم کی عداوت میں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
625
چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پیا جی کی سواری جا رہی ہے
شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے
فغاں اے دشمنِ دارِ دل و جاں
مری حالت سدھاری جا رہی ہے

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


0
1252
حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
تیرا فراق جان جاں عیش تھا کیا مرے لیے
یعنی ترے فراق میں خوب شراب پی گئی
تیرے وصال کے لیے اپنے کمال کے لیے
حالتِ دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی

مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن


1635
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


569
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
نہ گھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر
اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
913
دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو
اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو
جو بھی ہے اس کو گنوا بیٹھا ہے
میں بھلا کیسے گنوا دوں اس کو
تجھ گماں پر جو عمارت کی تھی
سوچتا ہوں کہ میں ڈھا دوں اس کو

فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
1181
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا
اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
913
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں
زجاج کی یہ عمارت ہے سنگ خارہ نہیں
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مرد ہیچ کارہ نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1049
نہ وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ وہ قصّہ کہانی ہے
فقط اک ہم ہیں بستر پر پڑے اور ناتوانی ہے
بھلا میں ہاتھ دھو بیٹھوں نہ اپنی جان سے کیوں کر
خرام اس کے میں اک آبِ رواں کی سی روانی ہے
تو یوں بے پردہ ہو جایا نہ کر ہر ایک کے آگے
نیا عالم ہے تیرا اور نئی کافر جوانی ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


1
2578
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت
جگر کو مرے عشقِ خوں نابہ مشرب
لکھے ہے 'خداوندِ نعمت سلامت'
علیَ اللّرغمِ دشمن، شہیدِ وفا ہوں
مبارک مبارک سلامت سلامت

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


1
1181
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے
بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سر گرانی اور ہے

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


1
3709
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود تھا
آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


1
3020
کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی "کہ وو آئے"
ہوں کش مکشِ نزع میں ہاں جذبِ محبّت
کچھ کہہ نہ سکوں، پر وہ مرے پوچھنے کو آئے
ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم
آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں، گو آئے

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


2
1660
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے پر
کیوں رات گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانہ کیا

بحرِ زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف


2
2930
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں
لیکن میں آزاد ہوں ساقی چھوٹے سے پیمانے میں
عمر ہے فانی عمر ہے باقی اس کی کچھ پروا ہی نہیں
تو یہ کہہ دے وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں
تجھ سے دوری دوری کب تھی پاس اور دور تو دھوکا ہیں
فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


2
1052
وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا
پلک جھپکتے، ہَوا میں لکیر ایسا تھا
اُسے تو، دوست کے ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ ، بھی تھا
خطا نہ ہوتا کسی طور، تیر ایسا تھا
پیام دینے کا موسم، نہ ہم نوا پاکر !
پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2
2097
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
3946
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے

مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن


2676
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نا دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں
جب سے دیکھا تیا قد و قامت دل پہ ٹوٹی ہوئی ہے قیامت
ہر بلا سے رہے تو سلامت دن جوانی کے آئے ہوئے ہیں
اور دے مجھ کو دے اورساقی ہوش رہتا ہے تھوڑا سا باقی
آج تلخی بھی ہے انتہا کی آج وہ بھی پرائے ہوئے ہیں

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فِع فاعِلن فاعِلن فاعِلن فِع


2979
مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہُوا کرتے ہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


2
3689
دیدۂ اشک بار ہے اپنا
اور دل بے قرار ہے اپنا
رشک صحرا ہے گھر کی ویرانی
یہی رنگِ بہار ہے اپنا
چشم گریاں سے چاک داماں سے
حال سب آشکار ہے اپنا

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2211
زندگی ایک اذیت ہے مجھے
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے
دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال
تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے
تری صورت تری زلفیں ملبوس
بس انہی چیزوں سے رغبت ہے مجھے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1579
ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


3087
جب تری جان ہو گئی ہوگی​
جان حیران ہو گئی ہو گی​
شب تھا میری نگہ کا بوجھ اس پر​
وہ تو ہلکان ہو گئی ہو گی​
اس کی خاطر ہوا میں خوار بہت​
وہ مِری آن ہو گئی ہو گی​

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2
3901
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا
سعی و تلاش بہت سی رہے گی اس انداز کے کہنے کی
صحبت میں علما فضلا کی جا کر پڑھیے گنیے گا
دل کی تسلی جب کے ہو گی گفت و شنود سے لوگوں کی
آگ پھنکے گی غم کی بدن میں اس میں جلیے بھنیے گا

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


933
من مورکھ مٹی کا مادھو، ہر سانچے میں ڈھل جاتا ہے
اس کو تم کیا دھوکا دو گے بات کی بات بہل جاتا ہے
جی کی جی میں رہ جاتی ہے آیا وقت ہی ٹل جاتا ہے
یہ تو بتاؤ کس نے کہا تھا، کانٹا دل سے نکل جاتا ہے
جھوٹ موٹ بھی ہونٹ کھلے تو دل نے جانا، امرت پایا
ایک اک میٹھے بول پہ مورکھ دو دو ہاتھ اچھل جاتا ہے

بحرِ ہندی/ متقارب اثرم مقبوض محذوف مضاعف


1
2637
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا
کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


746
ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا
پر اتنا بھی ظالم نہ رسوا ہوا تھا
خزاں التفات اس پہ کرتی بجا تھی
یہ غنچہ چمن میں ابھی وا ہوا تھا
کہاں تھا تو اس طور آنے سے میرے
گلی میں تری کل تماشا ہوا تھا

فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن


2688
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
صبر تھا ایک مونسِ ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں آتا

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1267