گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نا دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں |
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں |
جب سے دیکھا تیا قد و قامت دل پہ ٹوٹی ہوئی ہے قیامت |
ہر بلا سے رہے تو سلامت دن جوانی کے آئے ہوئے ہیں |
اور دے مجھ کو دے اورساقی ہوش رہتا ہے تھوڑا سا باقی |
آج تلخی بھی ہے انتہا کی آج وہ بھی پرائے ہوئے ہیں |
کل تھے آباد پہلو میں میرے اب ہیں غیروں کی محفل میں ڈیرے |
میری محفل میں کرکے اندھیرے اپنی محفل سجائے ہوئے ہیں |
اپنے ہاتھوں سے خنجر چلا کر کتنا معصوم چہرہ بنا کر |
اپنے کاندھوں پہ اب میرے قاتل میری میّت اٹھائے ہوئے ہیں |
مہ وشوں کو وفا سے کیا مطلب ان بُتوں کو خدا سے کیا مطلب |
ان کی معصوم نظروں نے ناصر لوگ پاگل بنائے ہوئے ہیں |
بحر
متدارک مثمن محذوف مضاعف
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فِع فاعِلن فاعِلن فاعِلن فِع |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات