تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
14 فروری
غزل
ناصر کاظمی
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نا دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں
جب سے دیکھا تیا قد و قامت دل پہ ٹوٹی ہوئی ہے قیامت
ہر بلا سے رہے تو سلامت دن جوانی کے آئے ہوئے ہیں
اور دے مجھ کو دے اورساقی ہوش رہتا ہے تھوڑا سا باقی
آج تلخی بھی ہے انتہا کی آج وہ بھی پرائے ہوئے ہیں
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نا دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فِع فاعِلن فاعِلن فاعِلن فِع
3
2441
معلومات