اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا |
ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا |
آمدِ دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی |
میں نے بھی اک چراغ سا دل سرِ شام رکھ دیا |
شدتِ تشنگی میں بھی غیرتِ مے کشی رہی |
اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا |
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے |
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا |
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں |
میں نے تو سب حسابِ جاں بر سرِ عام رکھ دیا |
اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس |
کبک دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا |
جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوشِ یار تھا |
اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا |
اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے |
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا |
بحر
رجز مثمن مطوی مخبون
مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات