تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
22 اگست
غزل
احمد فراز
اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا
آمدِ دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سرِ شام رکھ دیا
شدتِ تشنگی میں بھی غیرتِ مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا
اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن
17
9
779
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک
وضع میں گو ہوئی دو سر، تیغ ہے ذوالفقار ایک
ہم سخن اور ہم زباں، حضرتِ قاسم و طباں
ایک تپش کا جانشین، درد کی یادگار ایک
نقدِ سخن کے واسطے ایک عیارِ آگہی
شعر کے فن کے واسطے، مایۂ اعتبار ایک
دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک
مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن
0
221
معلومات