حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی |
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی |
تیرا فراق جان جاں عیش تھا کیا مرے لیے |
یعنی ترے فراق میں خوب شراب پی گئی |
تیرے وصال کے لیے اپنے کمال کے لیے |
حالتِ دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی |
اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ |
عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی |
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک |
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی |
بعد بھی تیرے جان جاں دل میں رہا عجب سماں |
یاد رہی تری یہاں پھر تری یاد بھی گئی |
اس کے بدن کو دی نمود ہم نے سخن میں اور پھر |
اس کے بدن کے واسطے ایک قبا بھی سی گئی |
مینا بہ مینا مے بہ مے جام بہ جام جم بہ جم |
ناف پیالے کی ترے یاد عجب سہی گئی |
کہنی ہے مجھ کو ایک بات آپ سے یعنی آپ سے |
آپ کے شہر وصل میں لذتِ ہجر بھی گئی |
صحن خیال یار میں کی نہ بسر شبِ فراق |
جب سے وہ چاندنا گیا جب سے وہ چاندنی گئی |
بحر
رجز مثمن مطوی مخبون
مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات