ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا |
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا |
یہی تو ہیں دو ستُونِ محکم انہی پہ قائم ہے نظمِ عالم |
یہی تو ہے رازِ خُلد و آدم ،نگاہ میری، شباب تیرا |
صبا تصدّق ترےنفس پر ،چمن ترے پیرہن پہ قرباں |
شمیمِ دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا |
تمام محفل کے رو برو ،گو اُٹھائیں نظریں، ملائیں آنکھیں |
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن، سوال میرا، جواب تیرا |
ہزار شاخیں ادا سے لچکیں ، ہوا نہ تیرا سا لوچ پیدا |
شفق نے کتنے ہی رنگ بدلے، ملا نہ رنگِ شباب تیرا |
اِدھر مرا دل تڑپ رہا ہے، تری جوانی کی جستجو میں |
اُدھر مرے دل کی آرزو میں مچل رہا ہے شباب تیرا |
کرے گی دونوں کا چاک پردہ، رہے گا دونوں کو کر کے رُسوا |
یہ شورشِ ذوقِ دید میری ،یہ اہتمامِ حجاب تیرا |
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں، فلک تو کیا، عرش کانپ اُٹھتا |
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زورِ شباب تیرا |
بھلا ہوا جوش نے ہٹایا نگاہ کا چشمِ تر سے پردہ |
بَلا سے جاتی رہیں گر آنکھیں ، کھُلا تو بندِ نقاب تیرا |
بحر
جمیل مثمن سالم
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات