ہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے
وہ جو چاہے بھی تو آزاد نہیں ہونے کے
دیکھ آ کر کبھی ان کو بھی جو تیرے ہاتھوں
ایسے اُجڑے ہیں کہ آباد نہیں ہونے کے
وصفِ مے اور صفتِ یار کے مضموں کے سوا
ناصحا تیرے سخن یاد نہیں ہونے کے
یارِ بد عہد کا کتنا بڑا احساں ہے کہ ہم
اب کسی کے لئے برباد نہیں ہونے کے
اس جفا جُو کو دعا دو کہ اگر وہ نہ رہا
پھر کسی سے ستم ایجاد نہیں ہونے کے
آج پھر جشن منایا گیا آزادی کا
کل گھروں پر کئی افراد نہیں ہونے کے
اتنے آرام طلب ہو تو محبت میں فراز
مِیر بن جاؤ گے فرہاد نہیں ہونے کے
بحر
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن

664

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں