دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
مِلا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا
جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیئے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دو پہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں یا آسمان کھا گیا
وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا
یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کی نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا
گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
اٹھو عمل کشو کہ آفتاب سر پہ آ گیا
بحر
ہزج مثمن مقبوض
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن

4
4142

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں
واااااااااہ واااااااہ واااااااہ بہت ہی عمدہ

0
کیا کہنے۔ ل
لطف آیا

0
یہ کس خوشی کی رُت پر غموں کی نیند آ گئی
یہ مصرع یہاں غلط لکھا ہوا ہے، وزن پر بھی نہیں آرہا۔ اصل مصرع یوں ہے۔

یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کی نیند آ گئی



اور دوسرے کلام بھی شامل فرمائیں

0