اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں |
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں |
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں |
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں |
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا |
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں |
اب ہے بس اپنا سامنا در پیش |
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں |
وہی ناز و ادا وہی غمزے |
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں |
عجب الزام ہوں زمانے کا |
کہ یہاں سب کے سر گیا ہوں میں |
کبھی خود تک پہنچ نہیں پایا |
جب کہ واں عمر بھر گیا ہوں میں |
تم سے جاناں ملا ہوں جس دن سے |
بے طرح خود سے ڈر گیا ہوں میں |
کوئے جاناں میں سوگ برپا ہے |
کہ اچانک سدھر گیا ہوں میں |
بحر
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
خفیف مسدس مخبون محذوف
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
||
خفیف مسدس مخبون محذوف
فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات