تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
23 دسمبر
غزل
جون ایلیا
کس سے اظہار مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے
ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک
آپ کیجے تو کیا کیا کیجے
آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجے
کس سے اظہار مدعا کیجے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
275
23 دسمبر
غزل
جون ایلیا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
148
23 دسمبر
غزل
جون ایلیا
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے
رنگ موسم ہے اور باد صبا
شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے
فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
1
69
23 دسمبر
غزل
جون ایلیا
ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
کوئی خاموش ہو گیا ہے کہیں
ہے کچھ ایسا کہ جیسے یہ سب کچھ
اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے کہیں
تجھ کو کیا ہو گیا کہ چیزوں کو
کہیں رکھتا ہے ڈھونڈھتا ہے کہیں
ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
60
23 دسمبر
غزل
جون ایلیا
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتل عام کر رہے ہیں
داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
106
23 دسمبر
غزل
جون ایلیا
آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا
وہ ہماری طرف نہ دیکھ کے بھی
کوئی احسان دھر گیا ہوگا
خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہوگا
آدمی وقت پر گیا ہوگا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
62
23 دسمبر
غزل
جون ایلیا
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں
روح نے عشق کا فریب دیا
جسم کو جسم کی عداوت میں
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
60
23 دسمبر
غزل
جون ایلیا
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
55
18 جنوری
غزل
میرا جی
دیدۂ اشک بار ہے اپنا
اور دل بے قرار ہے اپنا
رشک صحرا ہے گھر کی ویرانی
یہی رنگِ بہار ہے اپنا
چشم گریاں سے چاک داماں سے
حال سب آشکار ہے اپنا
دیدۂ اشک بار ہے اپنا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
3
1390
29 جولائی
غزل
میر تقی میر
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
10
1
2774
29 جولائی
غزل
حکیم مومن خان مومن
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
6
1817
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھِر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
5
1947
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
کوئی امید بر نہیں آتی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
2714
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہم ہیں مشتاق اور وہ بےزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
1304
29 جولائی
نظم
جوش ملیح آبادی
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
دل سے بیتے دنوں کی یاد مٹاؤ
نہ تو اَب خود ہی رو، نہ مجھ کو رُلاؤ
بھول جاؤ کہی سُنی باتیں!
نہ تو وہ دن ہیں اب نہ وہ راتیں
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
1
1582
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاشکے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
467
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کار و بارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
457
29 جولائی
نظم
مرزا غالب
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی
پھر اس انداز سے بہار آئی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
311
29 جولائی
آزاد نظم
ن م راشد
اے جہاں زاد، نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں؟
زور ِ مَے تھا،
کہ مرے ہاتھ کی لرزش
تھی کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا
تجھے حیرت نہ ہوئی!
حسن کوزہ گر نمبر 2
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
2
1452
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
اِس کتابِ طرب نصاب نے جب
آب و تاب انطباع کی پائی
فکرِ تاریخِ سال میں، مجھ کو
ایک صورت نئی نظر آئی
ہندسے پہلے سات سات کے دو
دیے ناگاہ مجھ کو دکھلائی
قطعہ تاریخ
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
132
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
اے جہاں آفریں خدائے کریم
ضائعِ ہفت چرخ، ہفت اقلیم
نام مکلوڈ جن کا ہے مشہور
یہ ہمیشہ بصد نشاط و سرور
عمرو دولت سے شادمان رہیں
اور غالبؔ پہ مہربان رہیں
اے جہاں آفریں خدائے کریم
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
111
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ خدا خدا کیجے
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
362
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
1256
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
350
29 جولائی
نظم
مرزا غالب
بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
1857
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
222
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
لاف تمکیں، فریبِ سادہ دلی
ہم ہیں، اور راز ہائے سینہ گداز
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
324
29 جولائی
غزل
داغ دہلوی
جب وہ بُت ہمکلام ہوتا ہے
دل و دیں کا پیام ہوتا ہے
اُن سے ہوتا ہے سامنا جس دن
دور ہی سے سلام ہوتا ہے
دل کو روکو کہ چشمِ گریاں کو
ایک ہی خوب کام ہوتا ہے
جب وہ بُت ہمکلام ہوتا ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
2
1520
29 جولائی
غزل
میر تقی میر
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد
آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
228
29 جولائی
نظم
فیض احمد فیض
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں محو ہیں بنانے میں
زنداں کی ایک شام
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
1
1967
29 جولائی
نظم
فیض احمد فیض
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول
ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول
تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تری یاد پر چڑھا آئے
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
305
29 جولائی
غزل
جون ایلیا
جب تری جان ہو گئی ہوگی
جان حیران ہو گئی ہو گی
شب تھا میری نگہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہو گی
اس کی خاطر ہوا میں خوار بہت
وہ مِری آن ہو گئی ہو گی
جب تری جان ہو گئی ہوگی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
13
2
2567
29 جولائی
غزل
میر تقی میر
گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا
دل نے ہم کو مثال آئینہ
ایک عالم کا روشناس کیا
کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اس بن
شوق نے ہم کو بے حواس کیا
گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
1
317
29 جولائی
غزل
میر تقی میر
خواب میں تو نظر جمال پڑا
پر مرے جی ہی کے خیال پڑا
وہ نہانے لگا تو سایۂ زلف
بحر میں تو کہے کہ جال پڑا
میں نے تو سر دیا پر اے جلاد
کس کی گردن پہ یہ وبال پڑا
خواب میں تو نظر جمال پڑا
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
155
معلومات