ہستی اپنی حباب کی سی ہے |
یہ نمائش سراب کی سی ہے |
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے |
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے |
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں |
حالت اب اضطراب کی سی ہے |
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز |
اسی خانہ خراب کی سی ہے |
میر ان نیم باز آنکھوں میں |
ساری مستی شراب کی سی ہے |
بحر
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
خفیف مسدس مخبون محذوف
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
||
خفیف مسدس مخبون محذوف
فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات