تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
23 دسمبر 2021
غزل
جون ایلیا
کس سے اظہار مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے
ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک
آپ کیجے تو کیا کیا کیجے
آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجے
کس سے اظہار مدعا کیجے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
1255
23 دسمبر 2021
غزل
جون ایلیا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
2
797
23 دسمبر 2021
غزل
جون ایلیا
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
ہے وہ جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
650
23 دسمبر 2021
غزل
جون ایلیا
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے
رنگ موسم ہے اور باد صبا
شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے
فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
1
1439
23 دسمبر 2021
غزل
جون ایلیا
ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
کوئی خاموش ہو گیا ہے کہیں
ہے کچھ ایسا کہ جیسے یہ سب کچھ
اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے کہیں
تجھ کو کیا ہو گیا کہ چیزوں کو
کہیں رکھتا ہے ڈھونڈھتا ہے کہیں
ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
1
551
23 دسمبر 2021
غزل
جون ایلیا
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتل عام کر رہے ہیں
داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
963
23 دسمبر 2021
غزل
جون ایلیا
آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا
وہ ہماری طرف نہ دیکھ کے بھی
کوئی احسان دھر گیا ہوگا
خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہوگا
آدمی وقت پر گیا ہوگا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
611
23 دسمبر 2021
غزل
جون ایلیا
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں
روح نے عشق کا فریب دیا
جسم کو جسم کی عداوت میں
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
611
23 دسمبر 2021
غزل
جون ایلیا
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
1
556
23 دسمبر 2021
غزل
جون ایلیا
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
نہ گھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر
اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے
بے قراری سی بے قراری ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
891
18 جنوری 2021
غزل
میرا جی
دیدۂ اشک بار ہے اپنا
اور دل بے قرار ہے اپنا
رشک صحرا ہے گھر کی ویرانی
یہی رنگِ بہار ہے اپنا
چشم گریاں سے چاک داماں سے
حال سب آشکار ہے اپنا
دیدۂ اشک بار ہے اپنا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
5
2195
27 دسمبر 2020
غزل
میر تقی میر
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
صبر تھا ایک مونسِ ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں آتا
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
3
1258
29 جولائی 2020
غزل
میر تقی میر
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد
آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
605
29 جولائی 2020
غزل
میر تقی میر
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پر خوں کی اک گلابی سے
جی ڈھہا جائے ہے سحر سے آہ
رات گذرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
708
29 جولائی 2020
قطعہ
فیض احمد فیض
دل رہینِ غمِ جہاں ہے آج
ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفلِ ہستی
اے غمِ دوست تو کہاں ہے آج
دل رہینِ غمِ جہاں ہے آج
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
2
1006
29 جولائی 2020
غزل
جون ایلیا
جب تری جان ہو گئی ہوگی
جان حیران ہو گئی ہو گی
شب تھا میری نگہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہو گی
اس کی خاطر ہوا میں خوار بہت
وہ مِری آن ہو گئی ہو گی
جب تری جان ہو گئی ہوگی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
13
2
3854
29 جولائی 2020
نظم
فیض احمد فیض
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول
ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول
تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تری یاد پر چڑھا آئے
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
997
29 جولائی 2020
نظم
فیض احمد فیض
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں محو ہیں بنانے میں
زنداں کی ایک شام
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
1
3390
29 جولائی 2020
قطعہ
مرزا غالب
اِس کتابِ طرب نصاب نے جب
آب و تاب انطباع کی پائی
فکرِ تاریخِ سال میں، مجھ کو
ایک صورت نئی نظر آئی
ہندسے پہلے سات سات کے دو
دیے ناگاہ مجھ کو دکھلائی
قطعہ تاریخ
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
484
29 جولائی 2020
غزل
حکیم مومن خان مومن
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
6
2979
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھِر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
6
3546
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
کوئی امید بر نہیں آتی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
1
10190
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہم ہیں مشتاق اور وہ بےزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
2618
29 جولائی 2020
نظم
جوش ملیح آبادی
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
دل سے بیتے دنوں کی یاد مٹاؤ
نہ تو اَب خود ہی رو، نہ مجھ کو رُلاؤ
بھول جاؤ کہی سُنی باتیں!
نہ تو وہ دن ہیں اب نہ وہ راتیں
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
3
2384
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاشکے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
979
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کار و بارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
1021
29 جولائی 2020
نظم
مرزا غالب
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی
پھر اس انداز سے بہار آئی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
834
29 جولائی 2020
غزل
میر تقی میر
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
11
1
3925
29 جولائی 2020
قطعہ
مرزا غالب
اے جہاں آفریں خدائے کریم
ضائعِ ہفت چرخ، ہفت اقلیم
نام مکلوڈ جن کا ہے مشہور
یہ ہمیشہ بصد نشاط و سرور
عمرو دولت سے شادمان رہیں
اور غالبؔ پہ مہربان رہیں
اے جہاں آفریں خدائے کریم
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
278
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ خدا خدا کیجے
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
1228
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
2628
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
848
29 جولائی 2020
نظم
مرزا غالب
بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
1857
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
764
29 جولائی 2020
غزل
مرزا غالب
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
لاف تمکیں، فریبِ سادہ دلی
ہم ہیں، اور راز ہائے سینہ گداز
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
827
29 جولائی 2020
غزل
داغ دہلوی
جب وہ بُت ہمکلام ہوتا ہے
دل و دیں کا پیام ہوتا ہے
اُن سے ہوتا ہے سامنا جس دن
دور ہی سے سلام ہوتا ہے
دل کو روکو کہ چشمِ گریاں کو
ایک ہی خوب کام ہوتا ہے
جب وہ بُت ہمکلام ہوتا ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
3
2267
معلومات