تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
18 جنوری
غزل
میرا جی
دیدۂ اشک بار ہے اپنا
اور دل بے قرار ہے اپنا
رشک صحرا ہے گھر کی ویرانی
یہی رنگِ بہار ہے اپنا
چشم گریاں سے چاک داماں سے
حال سب آشکار ہے اپنا
دیدۂ اشک بار ہے اپنا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
147
27 دسمبر
غزل
میر تقی میر
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
صبر تھا ایک مونسِ ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں آتا
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
2
81
29 جولائی
غزل
میر تقی میر
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
3
829
29 جولائی
غزل
حکیم مومن خان مومن
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
4
620
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھِر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
2
546
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
کوئی امید بر نہیں آتی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
371
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہم ہیں مشتاق اور وہ بےزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
223
29 جولائی
نظم
جوش ملیح آبادی
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
دل سے بیتے دنوں کی یاد مٹاؤ
نہ تو اَب خود ہی رو، نہ مجھ کو رُلاؤ
بھول جاؤ کہی سُنی باتیں!
نہ تو وہ دن ہیں اب نہ وہ راتیں
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
1
418
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاشکے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
77
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کار و بارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
108
29 جولائی
نظم
مرزا غالب
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی
پھر اس انداز سے بہار آئی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
68
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
اِس کتابِ طرب نصاب نے جب
آب و تاب انطباع کی پائی
فکرِ تاریخِ سال میں، مجھ کو
ایک صورت نئی نظر آئی
ہندسے پہلے سات سات کے دو
دیے ناگاہ مجھ کو دکھلائی
قطعہ تاریخ
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
35
29 جولائی
قطعہ
مرزا غالب
اے جہاں آفریں خدائے کریم
ضائعِ ہفت چرخ، ہفت اقلیم
نام مکلوڈ جن کا ہے مشہور
یہ ہمیشہ بصد نشاط و سرور
عمرو دولت سے شادمان رہیں
اور غالبؔ پہ مہربان رہیں
اے جہاں آفریں خدائے کریم
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
42
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ خدا خدا کیجے
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
67
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
298
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
59
29 جولائی
نظم
مرزا غالب
بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
1857
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
64
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
لاف تمکیں، فریبِ سادہ دلی
ہم ہیں، اور راز ہائے سینہ گداز
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
0
63
29 جولائی
غزل
داغ دہلوی
جب وہ بُت ہمکلام ہوتا ہے
دل و دیں کا پیام ہوتا ہے
اُن سے ہوتا ہے سامنا جس دن
دور ہی سے سلام ہوتا ہے
دل کو روکو کہ چشمِ گریاں کو
ایک ہی خوب کام ہوتا ہے
جب وہ بُت ہمکلام ہوتا ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
1
509
29 جولائی
غزل
میر تقی میر
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد
آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
61
29 جولائی
نظم
فیض احمد فیض
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں محو ہیں بنانے میں
زنداں کی ایک شام
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
493
29 جولائی
نظم
فیض احمد فیض
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول
ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول
تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تری یاد پر چڑھا آئے
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
84
29 جولائی
غزل
جون ایلیا
جب تری جان ہو گئی ہوگی
جان حیران ہو گئی ہو گی
شب تھا میری نگہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہو گی
اس کی خاطر ہوا میں خوار بہت
وہ مِری آن ہو گئی ہو گی
جب تری جان ہو گئی ہوگی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
11
2
907
29 جولائی
قطعہ
فیض احمد فیض
دل رہینِ غمِ جہاں ہے آج
ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفلِ ہستی
اے غمِ دوست تو کہاں ہے آج
دل رہینِ غمِ جہاں ہے آج
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
2
85
29 جولائی
غزل
میر تقی میر
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پر خوں کی اک گلابی سے
جی ڈھہا جائے ہے سحر سے آہ
رات گذرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
0
100
معلومات