ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائيں گے راہِ خدا، ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حسابِ خوں بہا ، ایسے نہیں ہوتا
جہانِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روزِ جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہیں نبضِ دوراں گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو گیا ایسے نہیں ہوتا
بحر
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

3
2971

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں
واااہ واااہ واااہ فضؔ صاحب کے ماشاءاللہ کیا کہنےےےے ❤️

بہت اعلی

0
اچھی غزل ہے مفہوم عام فہم ہے لیکن صرف الفاظ کا چناٶ ہے جو بھاری بھرکم ہے۔ باقی سب نارمل ہے

0