نہ وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ وہ قصّہ کہانی ہے
فقط اک ہم ہیں بستر پر پڑے اور ناتوانی ہے
بھلا میں ہاتھ دھو بیٹھوں نہ اپنی جان سے کیوں کر
خرام اس کے میں اک آبِ رواں کی سی روانی ہے
تو یوں بے پردہ ہو جایا نہ کر ہر ایک کے آگے
نیا عالم ہے تیرا اور نئی کافر جوانی ہے
نہ تنہا گل گریباں پھاڑتے ہیں دیکھ اس سج کو
چمن میں آب جو بھی چال پر اس کی دوانی ہے
تری باتوں نے تو اے مصحفی جی کو جلا ڈالا
خدا کے واسطے چپ رہ یہ کیا آتش زبانی ہے
بحر
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

1
2574

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ کلام

0