Circle Image

محمد سلیم شہزاد شائم

@Saleem

تم وجہہ سکوں شام و سحر ہو تو مجھے کیا
تم راحتِ جاں قلب و جگر ہو تو مجھے کیا
میری تو شب و روز اندھیروں میں ہے گزری
تم زہرہ جبیں رشکِ قمر ہو تو مجھے کیا
رو دھو کے وَلے میں نے یہ جیون ہے گزارا
اب تیرا نہ گزرے نہ بسر ہو تو مجھے کیا

19
ہوتا رہا ہر روز مرے ساتھ تماشا
جیون ہے بنا کھیل مری ذات تماشا
جس جس پہ بھروسہ تھا ملا اُس سے ہی دھوکہ
جس ہاتھ کو تھاما تھا وہی ہاتھ تماشا
ہر بات پہ کیوں مانگتا پھرتا ہے وضاحت
لگتی ہے اُسے کیوں مری ہر بات تماشا

21
پاک و بھارت کی جان ہے اُردو
دونوں دیسوں کی شان ہے اُردو
شہد سے بھی زیادہ میٹھی لگے
کتنی شیریں زبان ہے اُردو
عطر آگیں اِسی نے ہم کو کیا
مُشک ہے زعفران ہے اُردو

39
غم سے نباہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں
خود کو تباہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں
راہِ وفا میں اپنی لٹا کر متاعِ زیست
بس آہ آہ کر کے جئے جارہا ہوں میں
مجھ کو کہیں فرشتہ نہ بیٹھیں سمجھ یہ لوگ
قصداً گناہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں

30
کتنی بے جان ہو گئیں آنکھیں
برگِ مرجان ہو گئیں آنکھیں
آج رو رو کے یاد میں تیری
میری ہلکان ہو گئیں آنکھیں
کب تلک راہ تیری تکتیں یہ
حیف سنسان ہو گئیں آنکھیں

48
سوگواروں کی بات سنتا جا
دل فگاروں کی بات سنتا جا
جَھیل جاتے ہیں کیسے دریا کو
دو کناروں کی بات سنتا جا
دیکھ آئے ہیں بام پر ملنے
چاند تاروں کی بات سنتا جا

68
حادثوں نے ہی مجھ کو پالا ہے
روپ رنگ اس لیے نرالا ہے
اُس کی چُپ نے بتا دیا تھا صاف
داغ دامن پہ لگنے والا ہے
کچھ تو اپنی زُباں دراز کرو
کیوں پڑا لب پہ تیرے تالا ہے

58
جب جنوں عقل پہ چھائے تو غزل کہتے ہیں
ہوش جب ہوش اڑائے تو غزل کہتے ہیں
اُن کی یادوں کا برستا ہوا ساون بھادوں
آگ تن من میں لگائے تو غزل کہتے ہیں
رات کے پچھلے پہر دل کے نہاں خانے میں
کوئی چُپکے سے جو آئے تو غزل کہتے ہیں

43
رنگ تتلی کے میں چراتا ہوں
تیری تصویر جب بناتا ہوں
جس کے ہاتھوں میں زندگی اور موت
اُس کے در پر ہی سر جُھکاتا ہوں
مجھ سے احساس کا نہ مطلب پوچھ
ہر دُکھی کو گلے لگاتا ہوں

31
سکون دل کو بہت ہے کوئی ستائے مجھے
غموں کی آگ لگا کر کوئی جلائے مجھے
ستم تو یہ ہے ستم گر ستم نہیں کرتا
خوشی سے اوب گیا دل کوئی رُلائے مجھے
بنے ہیں جان کے دشمن ، جنون اور خرد
میں کس کی آئی مروں گا کوئی بتائے مجھے

41
کرتا رہا ہے مجھ سے وہ فنکاریاں بہت
چہرہ بدل بدل کے اداکاریاں بہت
اچھا ہوا وہ شخص مجھے دے گیا دغا
آسان کر گیا مری دشواریاں بہت
صیاد تیرے دام میں اب آؤں گا نہیں
تُو نے بھی مجھ سے کر لیں ہیں ہشیاریاں بہت

130
دلِ برباد کی آفات پہ رونا آیا
مختصر زیست کے صدمات پہ رونا آیا
کل تلک تیری خُرافات پہ رونا آیا
آج اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
سُن منافق تری اوقات پہ رونا آیا
اور مجھ پر کَسی ہفوات پہ رونا آیا

84
سانحہ نہیں ، حادثہ نہیں
بھاگ ہوں ترا ، عارضہ نہیں
قید کر نہ فُٹ نوٹ میں مجھے
مَتْنِ خاص ہوں حاشیہ نہیں
کیسے ماپے گا زاویوں میں تُو
دائرہ ہوں میں اور سرا نہیں

55
ناؤ اپنی جلا کے آیا تھا
یعنی سب کچھ لٹا کے آیا تھا
جانے کیسے ٹپک پڑے آنسو
میں تو سارے بہا کے آیا تھا
ہائے پوچھو نہ دردِ رخصت تم
ہنستا چہرہ رُلا کے آیا تھا

61
۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔
عجب صلہ چاہ کا دیا ہے
یہ کیا کیا ہے یہ کیا کیا ہے
وفا کا بدلہ جفا دیا ہے
یہ کیا کیا ہے یہ کیا کیا ہے
دو چار پل بھی نہیں گوارا

63
اک جہدِ مسلسل کا نام طارق
اَفْ لاحِ تسلسل کا نام طارق
انسانوں سے جس نے بھلائی کی ہے
اُس سوچِِ مَجَلَّل کا نام طارق

58
چاند تاروں سے بات ہوتی ہے
یوں بسر میری رات ہوتی ہے
عطسہ ءِ شب نِشات ہوتی ہے
مطمئن پھر حیات ہوتی ہے
اِس پہ اتنا بھروسہ آخر کیوں
زیست تو بےثبات ہوتی ہے

82
جھوٹ سے کچھ مِلا نہیں کرتا
آگ میں گُل کِھلا نہیں کرتا
تم لگاتے نمک ہو کانٹوں سے
زخم ایسے سِلا نہیں کرتا
دشمنوں کا بھی مان رکھتا ہوں
دوستوں سے گِلہ نہیں کرتا

61
دامن یوں اپنا مجھ سے چھڑانے کا شکریہ
نظروں میں سب کی مجھ کو گرانے کا شکریہ
میں کیسے جی رہا ہوں یہ آ کر کبھی تُو دیکھ
غم کے حوالے کر کے او جانے کا شکریہ
آزادی ءِ قلم ہے نہ آزادی ءِ زُباں
سوچوں پہ میری پہرہ لگانے کا شکریہ

234
مری بہار پہ رنگِ خزاں نہیں ہوتا
چمن جو چھوڑ گیا باغباں نہیں ہوتا
ہوائے ہجر نے مجھ سے وہ کھیل کھیلا ہے
کبھی زمیں تو کبھی آسماں نہیں ہوتا
مرے بدن کا تو ہر پَور پَور چیخے گا
نہ پوچھ درد مجھے اب کہاں نہیں ہوتا

32
زندگی کے عذاب سہنے ہیں
خار جیسے گلاب سہنے ہیں
چال بدلی ہے دوستوں نے اب
دشمنی کے نصاب سہنے ہیں
رو کے پوچھے غریب کی بیٹی
کتنے حاکم نواب سہنے ہیں

44
ہم بمشکل سراب سے نکلے
یعنی تیرے عذاب سے نکلے
آج اشکوں کے ساتھ ارماں بھی
دلِ خانہ خراب سے نکلے
اُس نے چھیڑی نہیں غزل میری
سوز کیسے رباب سے نکلے

50
اک خواب کے پیچھے بھاگے ہم
پھر ساری عمر ہی جاگے ہم
بس راہِ حیات میں جکڑے ہوئے
دو سوت کے کچے دھاگے ہم

95
فکرِ فردا کو پال بیٹھا ہوں
میں جو شوریدہ حال بیٹھا ہوں
جو بھی قسمت میں ہوگا سو ہوگا
میں تو سکہ اُچھال بیٹھا ہوں
اب تو دشمن بھی پیارے لگتے ہیں
دل سے نفرت نکال بیٹھا ہوں

47
ہم کو دنیا کا مال لے ڈوبا
عیش و عشرت کا جال لے ڈوبا
وقت سے پہلے ہو گئے بوڑھے
شاعری کا وبال لے ڈوبا
مرنا آسان تھا ہمارے لیے
جینے کا احتمال لے ڈوبا

118
شاعری کی کتاب جیسا وہ
خشبو شبنم گلاب جیسا وہ
میری نس نس میں ہے نشہ اُس کا
اک پرانی شراب جیسا وہ
اک نظر دیکھ لے تو دم نکلے
ہائے افراسیاب جیسا وہ

49
کیوں چھلکے مرے پیمانے ہیں
غم ہائے مرا نہ وہ جانے ہیں
تم مہر و وفا کا پیکر ہو
سب قصّے ہیں افسانے ہیں
ہم چاروں شانے چت ہیں ہوئے
کیا تیرِ نظر کے نشانے ہیں

53
آغاز لکھ رہے ہیں انجام لکھ رہے ہیں
کس کرب میں گزارے ایّام لکھ رہے ہیں
برسوں کی آشنائی کچھ بھی نہ کام آئی
باہم ہوئے جو سارے ابہام لکھ رہے ہیں
ہم کو نہیں گوارا یک حرف تم پہ یارا
سو سر لئے جو اپنے الزام لکھ رہے ہیں

119
نہ جواب دے ، نہ سوال کر
مری بے بسی پہ دھمال کر
کوئی رنج کر ، نہ ملال کر
تُو ستم اُٹھا ، نہ خیال کر
رُکے میرا دم ، مجھے دے وہ غم
جاں گسل تُو جینا محال کر

63
کَج ادائی کا درد مار گیا
بےوفائی کا درد مار گیا
اچھا ہوتا کہ غیر ہی رہتے
آشنائی کا درد مار گیا
تیرا شوقِ مزاح پر مجھ کو
جگ ہنسائی کا درد مار گیا

132
راز رکھتا ہوں بات رکھتا ہوں
قول دیتا ہوں ہاتھ رکھتا ہوں
کیا ڈرائے گا تُو اندھیروں سے
اپنا سورج میں ساتھ رکھتا ہوں
بھائی چارا ہی دیں دھرم میرا
فرقہ،مسلک نہ ذات رکھتا ہوں

42
عشق کا جب بخار ہو جاوے
روح تک بے مہار ہو جاوے
پھول خوشیوں کے اُس کو چُبھتے ہیں
درد سے جس کو پیار ہو جاوے
ہم کہاں جیت پائیں گے بازی
دشمنِ جاں جو یار ہو جاوے

86
بات دل کی مرے لب پہ آئی نہیں
جو حقیقت تھی اُن کو بتائی نہیں
بے بسی زارِ دل کی ذرا دیکھئے
چوٹ کھا کر بھی دیتا دُہائی نہیں
دشمنوں سے شکایت نہیں کچھ ہمیں
دوستی دوستوں نے نبھائی نہیں

57
آنکھ میں جو پانی ہے
تیری دی نشانی ہے
دوست ساتھ دیتے تھے
بات یہ پرانی ہے
کیا کرو گے سُن کر تم
دکھ بھری کہانی ہے

52
کتنے لاچار ہوگئے ہو تم
اور بیمار ہوگئے ہو تم
مہر و شفقت رہی نہ خوفِ خدا
توبہ اغیار ہوگئے ہو تم
اب کسی دام میں نہیں آتے
بڑے ہشیار ہوگئے ہو تم

53
ساقی شراب لا لا ساقی شراب لا
تھوڑی سی پی پلا لا ساقی شراب لا
پیمانہ آج شب تُو خالی نہ ہونے دے
دوں گا تُجھے دُعا لا ساقی شراب لا
کل شب تھے میکدے میں حیران رند سب
جب شیخ نے کہا لا ساقی شراب لا

97
ساقی شراب لا لا ساقی شراب لا
تھوڑی سی پی پلا لا ساقی شراب لا
پیمانہ آج شب تُو خالی نہ ہونے دے
دوں گا تُجھے دُعا لا ساقی شراب لا
کل شب تھے میکدے میں حیران رند سب
جب شیخ نے کہا لا ساقی شراب لا

173