تم وجہہ سکوں شام و سحر ہو تو مجھے کیا
تم راحتِ جاں قلب و جگر ہو تو مجھے کیا
میری تو شب و روز اندھیروں میں ہے گزری
تم زہرہ جبیں رشکِ قمر ہو تو مجھے کیا
رو دھو کے وَلے میں نے یہ جیون ہے گزارا
اب تیرا نہ گزرے نہ بسر ہو تو مجھے کیا
تنکوں کا نشیمن یہ مرا تُو نے گرایا
گھر تیرا اگر زِیر و زَبر ہو تو مجھے کیا
ملحوظ ! لڑائی میں نہیں رشتے ہیں رکھنے
تم سامنے گر سینہ سَپَر ہو تو مجھے کیا
پاداشِ محبت میں دیا سر کو ہے شائم
پھر بھی نہ اُسے کوئی خبر ہو تو مجھے کیا

19