حادثوں نے ہی مجھ کو پالا ہے
روپ رنگ اس لیے نرالا ہے
اُس کی چُپ نے بتا دیا تھا صاف
داغ دامن پہ لگنے والا ہے
کچھ تو اپنی زُباں دراز کرو
کیوں پڑا لب پہ تیرے تالا ہے
آنکھ کے گرد جو یہ حلقے ہیں
ہجر کے رَتجگوں کا ہالا ہے
در و دیوار زیست کے ہیں ہلے
ایسا اپنوں نے رخنہ ڈالا ہے
ورنہ شائم کبھی کے مر جاتے
غمِ دوراں نے ہی سنبھالا ہے

58