رنگ تتلی کے میں چراتا ہوں
تیری تصویر جب بناتا ہوں
جس کے ہاتھوں میں زندگی اور موت
اُس کے در پر ہی سر جُھکاتا ہوں
مجھ سے احساس کا نہ مطلب پوچھ
ہر دُکھی کو گلے لگاتا ہوں
چھیڑے سرگم جو تیری یادوں کی
اک غزل اپنی گنگناتا ہوں
جب بھی غم کے اندھیرے بڑھتے ہیں
آس کا اک دیا جلاتا ہوں
صبحِ ثاقب کے واسطے ہر شام
ایک سورج اُٹھا کے لاتا ہوں
آپ سے کس نے کہہ دیا شائم
سرسوں ہاتھوں پہ میں اُگاتا ہوں
شائم

31