مری بہار پہ رنگِ خزاں نہیں ہوتا
چمن جو چھوڑ گیا باغباں نہیں ہوتا
ہوائے ہجر نے مجھ سے وہ کھیل کھیلا ہے
کبھی زمیں تو کبھی آسماں نہیں ہوتا
مرے بدن کا تو ہر پَور پَور چیخے گا
نہ پوچھ درد مجھے اب کہاں نہیں ہوتا
جلا کے رکھ گیا ہے کون طاقِ نِسیاں پر
کبھی بُجھا ہی جو رہتا دھواں نہیں ہوتا
دکھاؤں داغِ جگر تم کو کیسے میں شائم
وہ کھائے زخم ہیں جن کا نشاں نہیں ہوتا

32