مری بہار پہ رنگِ خزاں نہیں ہوتا |
چمن جو چھوڑ گیا باغباں نہیں ہوتا |
ہوائے ہجر نے مجھ سے وہ کھیل کھیلا ہے |
کبھی زمیں تو کبھی آسماں نہیں ہوتا |
مرے بدن کا تو ہر پَور پَور چیخے گا |
نہ پوچھ درد مجھے اب کہاں نہیں ہوتا |
جلا کے رکھ گیا ہے کون طاقِ نِسیاں پر |
کبھی بُجھا ہی جو رہتا دھواں نہیں ہوتا |
دکھاؤں داغِ جگر تم کو کیسے میں شائم |
وہ کھائے زخم ہیں جن کا نشاں نہیں ہوتا |
معلومات