غم سے نباہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں
خود کو تباہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں
راہِ وفا میں اپنی لٹا کر متاعِ زیست
بس آہ آہ کر کے جئے جارہا ہوں میں
مجھ کو کہیں فرشتہ نہ بیٹھیں سمجھ یہ لوگ
قصداً گناہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں
آنگن ترا چمکتا دمکتا رہے سدا
جیون سیاہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں
زر،زن، زمین، خوشیاں ہاں شہرت سکون بھی
اِن سب کی چاہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں
شائم وفا کا بدلہ مجھے تو نہیں ملا
دنیا گواہ کر کے جئے جا رہا ہوں میں
شائم

30