زندگی کے عذاب سہنے ہیں
خار جیسے گلاب سہنے ہیں
چال بدلی ہے دوستوں نے اب
دشمنی کے نصاب سہنے ہیں
رو کے پوچھے غریب کی بیٹی
کتنے حاکم نواب سہنے ہیں
منزلِ عشق یوں نہیں ملتی
دار ، کربل ، چناب سہنے ہیں
مر کے ہی ہوں گے کم یہ غم شائم
جی کے یہ تو جناب سہنے ہیں

45