فکرِ فردا کو پال بیٹھا ہوں
میں جو شوریدہ حال بیٹھا ہوں
جو بھی قسمت میں ہوگا سو ہوگا
میں تو سکہ اُچھال بیٹھا ہوں
اب تو دشمن بھی پیارے لگتے ہیں
دل سے نفرت نکال بیٹھا ہوں
کانچ والوں کو خوف ہو نہ کوئی
موم میں خود کو ڈھال بیٹھا ہوں
آج خود کو جواب دینا ہے
خود سے کر کے سوال بیٹھا ہوں
غمِ ہجراں رہائی دے دے تُو
شوقِ حسرت وصال بیٹھا ہوں
یاد کی لَو سے میں قسم شائم
شبِ تِیرہ اُجال بیٹھا ہوں

47