کتنی بے جان ہو گئیں آنکھیں
برگِ مرجان ہو گئیں آنکھیں
آج رو رو کے یاد میں تیری
میری ہلکان ہو گئیں آنکھیں
کب تلک راہ تیری تکتیں یہ
حیف سنسان ہو گئیں آنکھیں
پیار سے جس نے بھی نگہ ڈالی
اُس پہ قربان ہو گئیں آنکھیں
اب تو آجاؤ لَوٹ کر شائم
خشک ویران ہو گئیں آنکھیں
شائم

48