کیوں چھلکے مرے پیمانے ہیں
غم ہائے مرا نہ وہ جانے ہیں
تم مہر و وفا کا پیکر ہو
سب قصّے ہیں افسانے ہیں
ہم چاروں شانے چت ہیں ہوئے
کیا تیرِ نظر کے نشانے ہیں
ہر بار ہی دھوکہ کھایا ہے
ہم کیسے کہاں کے سیانے ہیں
احساس کے موتی مل نہ سکے
سب سیپ سمندر چھانے ہیں
کچھ روز میں ہی پہچانے گئے
جو اپنے ہیں بیگانے ہیں
بے حال ہیں شائم آج بھی ہم
وہ ہی درد کے تانے بانے ہیں

53