نہ جواب دے ، نہ سوال کر
مری بے بسی پہ دھمال کر
کوئی رنج کر ، نہ ملال کر
تُو ستم اُٹھا ، نہ خیال کر
رُکے میرا دم ، مجھے دے وہ غم
جاں گسل تُو جینا محال کر
کئی پہروں سوچوں میں گُم رہوں
فسوں گر تُو ایسا کمال کر
رہا پاس تیرے بھی کچھ نہیں
مجھے زندگی سے نکال کر
جہاں تان ٹوٹی تھی پیار کی
کبھی آ کے اُس کو بحال کر
کہاں خوش رہو گے سلیم تم
پسِ پُشت مجھ کو یوں ڈال کر

63