ہم بمشکل سراب سے نکلے
یعنی تیرے عذاب سے نکلے
آج اشکوں کے ساتھ ارماں بھی
دلِ خانہ خراب سے نکلے
اُس نے چھیڑی نہیں غزل میری
سوز کیسے رباب سے نکلے
چاند بدلی سے چُھپ کے دیکھے اُسے
مہرو جب جب نقاب سے نکلے
ہار جائے گا جنگ جیتی تُو
پا ذرا جو رکاب سے نکلے
خاک ہونے کا ڈر ہو کیوں شائم
ہم ترابی تراب سے نکلے

50