شاعری کی کتاب جیسا وہ
خشبو شبنم گلاب جیسا وہ
میری نس نس میں ہے نشہ اُس کا
اک پرانی شراب جیسا وہ
اک نظر دیکھ لے تو دم نکلے
ہائے افراسیاب جیسا وہ
رنگ گرگٹ کی طرح بدلے ہے
آب سا بھی شہاب جیسا وہ
تال و سُر کا وہ میٹھا سا چشمہ
سازوں میں ہے رباب جیسا وہ
ڈھونڈ کر لاؤ گے تو مانوں گا
کون اُس سا جناب جیسا وہ
قدر آتی ہے اُس کی اب شائم
دھوپ میں تھا سحاب جیسا وہ

49