آنکھ میں جو پانی ہے
تیری دی نشانی ہے
دوست ساتھ دیتے تھے
بات یہ پرانی ہے
کیا کرو گے سُن کر تم
دکھ بھری کہانی ہے
سرد آہیں بھرتا ہوں
اُسکی مہربانی ہے
ہنس کے بات کو ٹالے
کتنی وہ سیانی ہے
آؤ شیخ پیتے ہیں
مدرا زعفرانی ہے
واہ شفتِ نازک کا
رنگ ارغوانی ہے
دن کا ہوں جو راجا میں
رات کی وہ رانی ہے
لب ترے ہیں دو مصرعے
تُو غزل سہانی ہے
یہ جو خُوش بیانی ہے
تحفہ ءِ ربّانی ہے
حرفِ یک اضافی سے
بحر ٹوٹ جانی ہے
وقت مختصر لیکن
داستاں سُنانی ہے
جگ نہ خُلد سمجھو تم
جگ سرائے فانی ہے
پیشوا ہمارا تو
سب جہاں کا بانی ہے
سانس سانس پر میری
رب کی حکمرانی ہے
مرگ کے حصاروں میں
لائی زندگانی ہے
اب ہو آئے تم شائم
ڈھل چکی جوانی ہے
شائم

52