سکون دل کو بہت ہے کوئی ستائے مجھے
غموں کی آگ لگا کر کوئی جلائے مجھے
ستم تو یہ ہے ستم گر ستم نہیں کرتا
خوشی سے اوب گیا دل کوئی رُلائے مجھے
بنے ہیں جان کے دشمن ، جنون اور خرد
میں کس کی آئی مروں گا کوئی بتائے مجھے
جو ہر قدم پہ مرے درد بانٹا کرتا تھا
بچھڑ گیا ہوں میں اُس سے کوئی ملائے مجھے
زمانے بھر کے طوفاں ہیں مرے تعاقب میں
بھنور میں ہے مری کشتی،کوئی بچائے مجھے
کوئی تو آکے میرے درد کا مداوا کرے
میں رو چکا ہوں بہت اب کوئی ہنسائے مجھے
یہ خواب مار ہی ڈالیں نہ مجھ کو اے شائم
خدارا ، نیند سے، آکر کوئی جگائے مجھے

41