ہوتا رہا ہر روز مرے ساتھ تماشا
جیون ہے بنا کھیل مری ذات تماشا
جس جس پہ بھروسہ تھا ملا اُس سے ہی دھوکہ
جس ہاتھ کو تھاما تھا وہی ہاتھ تماشا
ہر بات پہ کیوں مانگتا پھرتا ہے وضاحت
لگتی ہے اُسے کیوں مری ہر بات تماشا
کیسے میں محبت کا یقیں اُس کو دلاؤں
سمجھے جو مرے پیار کی برسات تماشا
کچھ اور بڑھاتے ہیں مرے درد کو شائم
کرتے ہیں کچھ ایسا مرے حالات تماشا
شائم

21