ناؤ اپنی جلا کے آیا تھا
یعنی سب کچھ لٹا کے آیا تھا
جانے کیسے ٹپک پڑے آنسو
میں تو سارے بہا کے آیا تھا
ہائے پوچھو نہ دردِ رخصت تم
ہنستا چہرہ رُلا کے آیا تھا
پڑا رہتا ہے اب وہ سجدوں میں
بُت کو کلمہ سُنا کے آیا تھا
زعم شائم جسے تھا خود پہ بہت
اُس کو درپن دکھا کے آیا تھا

61