Circle Image

تنویر روانہ

@tanveer.rawana.poet.786

برسوں کی تشنگی ہے کہ پل میں بجھا نہیں
مَیں ہوش میں نہ آ سکوں اتنا پلا نہیں
کیوں چھوڑ دے گا ساقی مرے حال پر مجھے
یہ پیاس بے سبب نہیں بے ضابطہ نہیں
خالی سہی مگر ابھی رہنے دے سامنے
جلدی بھی کیا ہے اتنی کہ ساغر اٹھا نہیں

154
حرفِ دعا ہے دل میں مگر لَب کُشا نہیں
لب تھرتھرا رہے ہیں کہ نکلی صدا نہیں
گزری ہے عمر ساری رکوع و قیام میں
سجدہ نمازِ عشق میں ہوتا اَدا نہیں
رسوائی کا سبب تھا کہ خاموش چل دِیے
کہنا تھا جو زمانے سے کچھ بھی کہا نہیں

227
ہم ازل سے دل جلاتے آئے ہیں
سوگ الفت کا مناتے آئے ہیں
سکھ نہیں پایا گھڑی بھر کے لئے
ٹھوکریں در در کی کھاتے آئے ہیں
دریا میں طغیانی ایسے تو نہیں
ہر جگہ آنسو بہاتے آئے ہیں

207
ڈھونڈتے کیا ہو دارِ فانی میں
ہُو کا عالم ہے لامکانی میں
قرب حاصل ہے مجھ کو یزداں کا
دل کو رکھا ہے ترجمانی میں
آج تک تجھ سے کچھ نہیں مانگا
کر عطا دید ارمغانی میں

226
دھڑکن جو گا رہی ہے ترانہ فضول ہے
ایسے میں ساز دل کا بجانا فضول ہے
اے دل کبھی اَلاپ کوئی راگ درد کا
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ گانا فضول ہے
فریاد کر رہا ہوں کہ سُنتا نہیں کوئی
بے رحم دور ہے یہ زمانہ فضول ہے

248
عشق تیرا پسار لیتے ہیں
تجھ کو دل میں اُتار لیتے ہیں
آج ہم تیرے رُو برُو ہو کے
اپنی دنیا سنوار لیتے ہیں
اب کہ تنویر بات بَن جائے
نام لے کر پکار لیتے ہیں

0
484
پڑھ جانِ جگر دل کی کتاب اور زیادہ
کھل جائیں گے پھر درد کے باب اور زیادہ
ہو پائے گی تجھ سے نہ کبھی زخموں کی گنتی
بڑھ جائے گا آہوں کا نصاب اور زیادہ
ہر باب سنائے گا اذیت کی کہانی
الفاظ سے نکلے گا خَلاب اور زیادہ

0
110
پھول نے پھول سے کہا خوشبو
ساتھ رہتی نہیں سدا خوشبو
سر تا پاؤں کہ تُو معطر ہے
تجھ سے ظالم تری ادا خوشبو
خوشبو گُل ہے کہ گُل نما خوشبو
با وفا ہے کہ بے وفا خوشبو

0
140
دورِ بچپن کا کیا زمانہ تھا
شادمانی کا اک خزانہ تھا
عمرِ رفتہ رواں رہی آخر
زندگی کا فریب کھانا تھا
وقت بدلا تو کیا نہیں بدلا
جو حقیقت تھی سو فسانہ تھا

0
338
کروں رب کا دیدار یہ آرزو ہے
یہی ہے تمنا یہی جستجو ہے
نظر آ رہا ہے وہ شہ رگ کے اندر
ہے مجھ میں وہ جس کی مجھے جستجو ہے
نہیں ہے سوا تیرے کوئی بھی خواہش
مرے دل میں تُو ہے تری آرزو ہے

0
215
اہلِ فلک کے باسی خوشیاں منا رہے ہیں
عرشِ بریں پہ آقا تشریف لا رہے ہیں
تعظیم کر رہے ہیں سر کو جھکا رہے ہیں
صلے علی کا نعرہ قدسی لگا رہے ہیں
دیدار کی بشارت جبریل دے رہا ہے
آقا کو اپنے در پر خالق بُلا رہے ہیں

184
کیا ہے جرم انساں نے تمنا کی قیادت میں
ازل سے آگئی دنیا گناہوں کی حراست میں
بڑی مدت سے رہتا ہوں غریبی کی شباہت میں
خودی کو سونپ رکھا ہے غلامی کی کفالت میں
یہاں تذلیل ہوتی ہے بنی آدم کے پیکر کی
ملے گا کیا زمانے کو ملامت میں ضلالت میں

175
شیوہِ مسلمانی آپ کی وِساطَت ہے
آپ کا کرم ورنہ میری کیا جَسارَت ہے
آپ کی محبت میں ایسی میری حالت ہے
کل بھی تو قیامت تھی آج بھی قیامت ہے
شکر ہے خدا کا اسلام کا محافظ ہوں
آپ کی نوازش ہے آپ کی عنایت ہے

167
یہ کہا کس نے تجھ سے بچھڑ جائیں گے
جب ترا ساتھ چھوٹا تو مر جائیں گے
رفتہ رفتہ کہیں ہم گزر جائیں گے
ایک دن ہم لحد میں اتر جائیں گے
تب خدا جانے ہو گا مرے ساتھ کیا
جب لحد میں مجھے چھوڑ کر جائیں گے

0
215
کون کہتا ہے کہ اقرار نہیں ہو سکتا
عشق سچا ہے تو انکار نہیں ہو سکتا
اب بھی بازار میں بکتے ہیں ہزاروں بردے
حسنِ یوسف سرِ بازار نہیں ہو سکتا
عین ممکن کہ خریدے کوئی ساری دنیا
پھر زلیخا سا خریدار نہیں ہو سکتا

0
268
جب کبھی موسمِ بہار آیا
اُجڑے گلشن پہ پھر نکھار آیا
شکل و صورت وہی رہی اپنی
اِسْتِحالَہ کبھی کبھار آیا
مجھ کو حالات نے بدل ڈالا
کس لئے خود کو تُو سنوار آیا

174
اپنی الفت میں پاگل بنا دیجئے
نت نئے پھر ستم مجھ پہ ڈھا دیجئے
خوگرِ غایتِ دردِ دل دیکھئے
کیجئے درماں نہ کوئی دوا دیجئے
برملا ہوں بضد بے خطا ہوں بجز
مجھ پہ بالجبر ہے افترا دیجئے

129
رَگوں میں لہو ہی لہو چل رہا ہے
بدن میں تپش ہے کہ دل جل رہا ہے
قدم بڑھ رہے ہیں بڑھاپے کی جانب
جوانی کا سورج کہیں ڈھل رہا ہے
خیالوں کے تابع رہی ہے حقیقت
حقیقت سے افضل تخیل رہا ہے

121
درد و الم سے چُور یہ ہستی مَلال جیسی ہے
غم زدہ زندگی مری آہ غزال جیسی ہے
کرب و بلا کی خاک پر جلتی مَشَال جیسی ہے
زخمی دل و جگر ہیں اور روح نڈھال جیسی ہے
روحِ بشر خدا کی قدرت ہے اور امرِ ربی ہے
آدمی کی مثال تو خاکِ سِفال جیسی ہے

0
214
جب حُسنِ مجسم کو اشعار میں ڈھالا ہے
ہر لفظ بنا تیری صورت کا حوالا ہے
عنوان بھی ساده ہے مضمون بھی سادہ ہے
کہتے ہیں کہ کاتب کا انداز نرالا ہے
اندازہ لگا لُوں گا قسمت کی سیاہی کا
اے یار تری زُلفوں کا رنگ جو کالا ہے

0
414
ہے نہ کاغذ قلم دَوات اپنی
کیسے لکھیں گے اب صفات اپنی
کہتے ہیں جس کو فطرتِ انساں
علمِ کامل ہے نفسیات اپنی
زندگی کرب میں گزاری ہے
کربلا جیسی ہے حیات اپنی

266
مرے قریب وہ آئے اور آ کے بیٹھ گئے
لَبِ خموش میں انگلی دَبا کے بیٹھ گئے
کہ بیٹھا کوئی مجاور مزارِ عشق پہ ہو
یوں میرے قدموں میں وہ سَر جُھکا کے بیٹھ گئے
تَھکا چُکا تھا اُنھیں اپنی زندگی کا سفر
ہمارے ساتھ وہ تکیہ لگا کے بیٹھ گئے

0
181
اِک قافلہ ٹھہرا تھا کربل کے وِرانے میں
سب لوگ جِسے کرتے ہیں یاد زمانے میں
دجلہ کے کنارے پر شبیر کے تھے خیمے
سرگرم تھے قاتل بھی وہاں خون بہانے میں
حرمت کا بھرم رکھنا پردیس میں اے مولا
سید کا بسیرا ہے کربل کے وِرانے میں

139
ہے غم سے نڈھال روح مولا حسین کی
کبھی اُجڑی تھی یہاں پہ دنیا حسین کی
گرم آگ کا ہیولا سا بن گئی ہوا
جلا یاد میں وجودِ صحرا حسین کی
کی شبیر نے لہو سے سیراب کربلا
بجھائی پیاس کیوں نہ دریا حسین کی

350
مِٹا نہیں مرا نام و نشاں میں زندہ ہوں
ابھی تو ہیں مری سانسیں رواں میں زندہ ہوں
ابھی تلک مرے جینے کی آس ہے باقی
ابھی تلک ہے جگر خوں فشاں میں زندہ ہوں
ابھی تلک تو مسلسل دھڑک رہا ہے دل
تڑپ رہی ہے ابھی مجھ میں جاں میں زندہ ہوں

647
گھٹائیں گفتگو جب آسماں سے کرنے لگیں
زمیں کی گود میں بارش کی بوندیں گرنے لگیں
سیاہ پوش جہاں بامِ گردوں سے ہو گیا
اُسانا بدلیاں آکاش سے اترنے لگیں
تمام دن کہ اماوس کی رات جیسا رہا
جہاں کی رونقیں تاریکیوں سے ڈرنے لگیں

164
دریائے بے خودی میں اترنے نہیں دیا
آنکھوں میں مجھ کو ڈوب کے مرنے نہیں دیا
لذت کے اعتبار سے غم نے دیا مزہ
جو دردِ قلب اور جگر نے نہیں دیا
سینے پہ زخم مَیں نے بہت کھائے ہیں مگر
ساطور دل کے پار گزرنے نہیں دیا

0
126
تجھ کو بھولا ہوں تو پھر کچھ بھی رہا یاد نہیں
مَیں کہ زندہ ہوں مجھے اپنی بَقا یاد نہیں
اِس قدر ٹوٹ کے بکھرا ہوں محبت میں ابھی
میرے ذرات کو ہستی کی اَدا یاد نہیں
درد سے خود کو تڑپتے ہوئے دیکھا ہے فقط
جانے کب تیرِ نظر دل پہ لگا یاد نہیں

2
214
ہے خدا یاد مگر خلقِ خدا یاد نہیں
خود غرض لوگوں کو کچھ اپنے سوا یاد نہیں
یاد ہے آج بھی وُہ لوح و قلم روزِ ازل
میری تقدیر میں کیا کیا ہے لکھا یاد نہیں
میں تری خلد سے نکلا ہوا انساں ہوں مگر
کب کہاں کیسے ہوئی مجھ سے خطا یاد نہیں

6
395
کی تمنا جو زندگانی میں
زندگی لُٹ گئی جوانی میں
خود کو برباد کر دیا ہم نے
تیری چاہت کی پاسبانی میں
غور سے سنیے داستاں میری
غم ہی غم ہے مری کہانی میں

205
جب سے زباں پہ ذکرِ محمد رواں ہوا
صَلَّے علٰی کے وجد کا طاری سماں ہوا
ہر کوئی جھومنے لگا عشقِ رسول میں
اس قدر لطفِ کرم سے دل بیکراں ہوا
دل کو خدا نے عرشِ معلی بنا لیا
پھر تو زمیں زمیں نہ رہی آسماں ہوا

143