مِٹا نہیں مرا نام و نشاں میں زندہ ہوں
ابھی تو ہیں مری سانسیں رواں میں زندہ ہوں
ابھی تلک مرے جینے کی آس ہے باقی
ابھی تلک ہے جگر خوں فشاں میں زندہ ہوں
ابھی تلک تو مسلسل دھڑک رہا ہے دل
تڑپ رہی ہے ابھی مجھ میں جاں میں زندہ ہوں
دکھائی دے رہے ہیں جو نظارے قدرت کے
گواہی دیتا ہے سارا جہاں میں زندہ ہوں
جلا نہ مجھ کو ستم گر جہان فانی میں
بہا نہ گنگا مری استیاں میں زندہ ہوں
حیات و موت کی جاری ہے کشمکش لیکن
ابھی تو ہے مری ہمت جواں میں زندہ ہوں
مرا وجود ترے کام کا نہیں شاید
کہ موت زندگی کے درمیاں میں زندہ ہوں
خدا گواہ کہ مر کے بھی مر نہیں سکتا
بتا اے عشق تری داستاں میں زندہ ہوں
غموں نے تو مجھے تنویر مار ڈالا ہے
کہ جی رہا ہوں بظاہر کہاں میں زندہ ہوں
جہان کہتا ہے تنویر مر چکا ہوں میں
نجانے کیوں ہو رہا ہے گماں میں زندہ ہوں
تنویر روانہ ،،،،سرگودھا پاکستان

513