رَگوں میں لہو ہی لہو چل رہا ہے |
بدن میں تپش ہے کہ دل جل رہا ہے |
قدم بڑھ رہے ہیں بڑھاپے کی جانب |
جوانی کا سورج کہیں ڈھل رہا ہے |
خیالوں کے تابع رہی ہے حقیقت |
حقیقت سے افضل تخیل رہا ہے |
ترے حسن کا میں بھی سائل رہا ہوں |
مرے عشق کا تُو بھی قائل رہا ہے |
شریکِ الم درد و غم کا یہ فتنہ |
ازل سے رگِ جاں میں شامل رہا ہے |
لگا دے مرے دل کے زخموں پہ مرہم |
کبھی درد سے تُو بھی گھائل رہا ہے |
کئی بار بدلی زمانے کی صورت |
ہمیشہ تَغَیُّر تَبَدُّل رہا ہے |
زمانے سے تنویر سیکھا بہت کچھ |
زمانہ مرا پیرِ کامل رہا ہے |
تنویر روانہ سرگودھا |
معلومات