اہلِ فلک کے باسی خوشیاں منا رہے ہیں
عرشِ بریں پہ آقا تشریف لا رہے ہیں
تعظیم کر رہے ہیں سر کو جھکا رہے ہیں
صلے علی کا نعرہ قدسی لگا رہے ہیں
دیدار کی بشارت جبریل دے رہا ہے
آقا کو اپنے در پر خالق بُلا رہے ہیں
دیدار کے لئے کتنا منتظر خدا ہے
معبودِ کبریا خود پردہ اٹھا رہے ہیں
یوں نور ہے کہ گردوں پرنور ہو گیا ہے
عرشِ بریں پہ خالق جلوہ دکھا رہے ہیں
رحمت برس رہی ہے گَردُوں دمک رہا ہے
رفعت پہ چاند اور تارے جگمگا رہے ہیں
تنویر اب کہ حوضِ کوثر پہ مَیں کھڑا ہوں
جامِ طَہُور آقا مجھ کو پلا رہے ہیں
تنویرروانہ

174