مرے قریب وہ آئے اور آ کے بیٹھ گئے |
لَبِ خموش میں انگلی دَبا کے بیٹھ گئے |
کہ بیٹھا کوئی مجاور مزارِ عشق پہ ہو |
یوں میرے قدموں میں وہ سَر جُھکا کے بیٹھ گئے |
تَھکا چُکا تھا اُنھیں اپنی زندگی کا سفر |
ہمارے ساتھ وہ تکیہ لگا کے بیٹھ گئے |
نہ جانتا ہوں انھیں مَیں نہ ہی وہ جانتے ہیں |
عجب سا رشتہ وہ مجھ سے بنا کے بیٹھ گئے |
نگاہِ دید نے جب دید کا تقاضا کیا |
حجابِ دست میں وہ منہ چھپا کے بیٹھ گئے |
کہاں سے آئے ہو تم اَب یہاں سے چلتے بنو |
نہیں نہیں میں وہ لَب تَھر تَھرا کے بیٹھ گئے |
اندھیری رات میں تنویر روشنی کے لئے |
ہماری راہ میں وہ دل جلا کے بیٹھ گئے |
تنویر روانہ سرگودھا |
معلومات