درد و الم سے چُور یہ ہستی مَلال جیسی ہے |
غم زدہ زندگی مری آہ غزال جیسی ہے |
کرب و بلا کی خاک پر جلتی مَشَال جیسی ہے |
زخمی دل و جگر ہیں اور روح نڈھال جیسی ہے |
روحِ بشر خدا کی قدرت ہے اور امرِ ربی ہے |
آدمی کی مثال تو خاکِ سِفال جیسی ہے |
مجھ کو جہاں میں شَرْقاً غَرْباً نہ تلاش کرنا تُم |
سمت مری جنوب جیسی ہے شمال جیسی ہے |
جاری ہے رقص پھر قلندر کا دہکتی آگ پر |
قلب پہ طاری حالتِ وجد دھمال جیسی ہے |
طفلِ شعوری میں کہ انگار زباں پہ رکھ لیا |
دورِ جوانی میں طلب طلبِ نہال جیسی ہے |
عشقِ الٰہی میرا بھی عشقِ خلیل جیسا ہے |
بانگِ دِرا مری بھی اب بانگِ بلال جیسی ہے |
یومِ حساب جیسا تنویر فراق کا ہے دن |
آج تو شمس کی تپش روزِ وصال جیسی ہے |
تنویر روانہ سرگودھا |
معلومات