درد و الم سے چُور یہ ہستی مَلال جیسی ہے
غم زدہ زندگی مری آہ غزال جیسی ہے
کرب و بلا کی خاک پر جلتی مَشَال جیسی ہے
زخمی دل و جگر ہیں اور روح نڈھال جیسی ہے
روحِ بشر خدا کی قدرت ہے اور امرِ ربی ہے
آدمی کی مثال تو خاکِ سِفال جیسی ہے
مجھ کو جہاں میں شَرْقاً غَرْباً نہ تلاش کرنا تُم
سمت مری جنوب جیسی ہے شمال جیسی ہے
جاری ہے رقص پھر قلندر کا دہکتی آگ پر
قلب پہ طاری حالتِ وجد دھمال جیسی ہے
طفلِ شعوری میں کہ انگار زباں پہ رکھ لیا
دورِ جوانی میں طلب طلبِ نہال جیسی ہے
عشقِ الٰہی میرا بھی عشقِ خلیل جیسا ہے
بانگِ دِرا مری بھی اب بانگِ بلال جیسی ہے
یومِ حساب جیسا تنویر فراق کا ہے دن
آج تو شمس کی تپش روزِ وصال جیسی ہے
تنویر روانہ سرگودھا

0
218