ہے خدا یاد مگر خلقِ خدا یاد نہیں
خود غرض لوگوں کو کچھ اپنے سوا یاد نہیں
یاد ہے آج بھی وُہ لوح و قلم روزِ ازل
میری تقدیر میں کیا کیا ہے لکھا یاد نہیں
میں تری خلد سے نکلا ہوا انساں ہوں مگر
کب کہاں کیسے ہوئی مجھ سے خطا یاد نہیں
میرے حالات پہ روتی ہے زبوں حالی مری
کس لئے خود کو ہے برباد کیا یاد نہیں
اِک بُرا وقت کہ ماضی میں جو آیا تھا کبھی
دورِ حاضر میں مجھے وقتِ قضا یاد نہیں
زندگی میں مجھے دنیا نے بہت زخم دِیے
یاد ہے درد مگر کوئی دَوا یاد نہیں
کون پوچھے گا بُرا حال غریبوں کا یہاں
وقت ایسا ہے کہ لوگوں کو خدا یاد نہیں
روز تڑپاتا ہے مجھ کو غمِ اولادِ علی
کون کہتا ہے مجھے کرب و بلا یاد نہیں
کوہِ سینا پہ جو دیکھی تھی الٰہی کی جھلک
اِس سے پہلے کہ کبھی ہوش میں تھا یاد نہیں
ہوش آنے پہ وہاں خود کو گِرا پایا مگر
بے خودی میں جو ملا ہے وُہ نشہ یاد نہیں
مَیں نے غزلوں میں دِکھائی ہے بہت جادو گری
مَیں وہ ساحر ہوں جِسے اپنا عَصا یاد نہیں
ایک کھویا ہُوا تنویر مسافر ہوں مگر
مَیں کہاں جاؤں مجھے گھر کا پتہ یاد نہیں
تنویر روانہ سرگودھا پاکستان

6
404
بہت خوب برادر

بہت عمدہ

سلام!
زبردست تنویر صاحب، ساغر صدیقی صاحب کی زمین کو خوب نبھایا ہے آپ نے... بہت بہت تہنیت قبول ہو...

بہت شکریہ جناب عامر رضا صاحب ساغر صدیقی صاحب کی زمین میں مزید ایک غزل اسی انداز میں باقی ہے بعد میں ارسال کروں گا

0
ماشاء اللہ... ہم منتظر رہیں گے...

انشاء اللہ

0