ہے خدا یاد مگر خلقِ خدا یاد نہیں |
خود غرض لوگوں کو کچھ اپنے سوا یاد نہیں |
یاد ہے آج بھی وُہ لوح و قلم روزِ ازل |
میری تقدیر میں کیا کیا ہے لکھا یاد نہیں |
میں تری خلد سے نکلا ہوا انساں ہوں مگر |
کب کہاں کیسے ہوئی مجھ سے خطا یاد نہیں |
میرے حالات پہ روتی ہے زبوں حالی مری |
کس لئے خود کو ہے برباد کیا یاد نہیں |
اِک بُرا وقت کہ ماضی میں جو آیا تھا کبھی |
دورِ حاضر میں مجھے وقتِ قضا یاد نہیں |
زندگی میں مجھے دنیا نے بہت زخم دِیے |
یاد ہے درد مگر کوئی دَوا یاد نہیں |
کون پوچھے گا بُرا حال غریبوں کا یہاں |
وقت ایسا ہے کہ لوگوں کو خدا یاد نہیں |
روز تڑپاتا ہے مجھ کو غمِ اولادِ علی |
کون کہتا ہے مجھے کرب و بلا یاد نہیں |
کوہِ سینا پہ جو دیکھی تھی الٰہی کی جھلک |
اِس سے پہلے کہ کبھی ہوش میں تھا یاد نہیں |
ہوش آنے پہ وہاں خود کو گِرا پایا مگر |
بے خودی میں جو ملا ہے وُہ نشہ یاد نہیں |
مَیں نے غزلوں میں دِکھائی ہے بہت جادو گری |
مَیں وہ ساحر ہوں جِسے اپنا عَصا یاد نہیں |
ایک کھویا ہُوا تنویر مسافر ہوں مگر |
مَیں کہاں جاؤں مجھے گھر کا پتہ یاد نہیں |
تنویر روانہ سرگودھا پاکستان |
معلومات