ہم ازل سے دل جلاتے آئے ہیں
سوگ الفت کا مناتے آئے ہیں
سکھ نہیں پایا گھڑی بھر کے لئے
ٹھوکریں در در کی کھاتے آئے ہیں
دریا میں طغیانی ایسے تو نہیں
ہر جگہ آنسو بہاتے آئے ہیں
میری ہمت میں نہیں آئی کمی
ظلم ڈھانے والے ڈھاتے آئے ہیں
پیاس سے دل مر چکا ہوتا مگر
ہم لہو دل کو پلاتے آئے ہیں
زندگی دم توڑ ہی دیتی مگر
حوصلہ دل کا بڑھاتے آئے ہیں
موت سے تنویر ہے کس کی بنی
خود کو ہم جینا سکھاتے آئے ہیں
تنویرروانہ

212