| تجھ کو بھولا ہوں تو پھر کچھ بھی رہا یاد نہیں |
| مَیں کہ زندہ ہوں مجھے اپنی بَقا یاد نہیں |
| اِس قدر ٹوٹ کے بکھرا ہوں محبت میں ابھی |
| میرے ذرات کو ہستی کی اَدا یاد نہیں |
| درد سے خود کو تڑپتے ہوئے دیکھا ہے فقط |
| جانے کب تیرِ نظر دل پہ لگا یاد نہیں |
| رفتہ رفتہ مری نَس نَس میں جو بہتا ہے لہو |
| جانے کس نے مجھے یہ زخم دِیا یاد نہیں |
| خود کو پایا ہے تڑپتے ہوئے مجنوں کی طرح |
| کچھ مجھے دشت میں لیلٰی کے سِوا یاد نہیں |
| بے قراری سی مرے قلب میں رہتی ہے فقط |
| کب کہاں کس سے مجھے عشق ہوا یاد نہیں |
| خود کو اے عشق تری ذات پہ قربان کیا |
| دل ہوا جان ہوئی کس پہ فدا یاد نہیں |
| تَھر تَھرائے تھے تبسم میں لبِ یار کبھی |
| مسکراتے ہوئے کیا اُس نے کہا یاد نہیں |
| کون رکھے گا اُسی یار سے امیدِ وفا |
| بے وفا ہے کہ جِسے عہدِ وفا یاد نہیں |
| عشق میں لکّھے ہیں مَیں نے کئی دیوان مگر |
| کون سا پہلے پہل شعر کہا یاد نہیں |
| زخم تنویر کریدے ہیں کئی بار ترے |
| کیا ترے درد میں پایا ہے مزہ یاد نہیں |
| تنویر روانہ ،،،،سرگودھا پاکستان |
معلومات