| جب حُسنِ مجسم کو اشعار میں ڈھالا ہے |
| ہر لفظ بنا تیری صورت کا حوالا ہے |
| عنوان بھی ساده ہے مضمون بھی سادہ ہے |
| کہتے ہیں کہ کاتب کا انداز نرالا ہے |
| اندازہ لگا لُوں گا قسمت کی سیاہی کا |
| اے یار تری زُلفوں کا رنگ جو کالا ہے |
| یہ ہونٹ یہ آنکھیں پیمانہ ہے شرابی کا |
| یہ حُسن کسی بُھوکھے عاشق کا نوالا ہے |
| اب تیرے سوا کوئی خواہش ہی نہیں میری |
| لگتا ہے کہ دنیا تیرے حُسن کی مالا ہے |
| یہ روشنی سورج کی مدھم ہے سوا تیرے |
| تیری ہی بدولت اِس دنیا میں اُجالا ہے |
| ناراض ہوئے ہو تب سے بُھول گئے ہو تم |
| کب ہم نے تجھے اپنے اِس دل سے نکالا ہے |
| بُجھتی ہوئی چنگاری کو دی ہے ہوا کس نے |
| ٹھہرے ہوئے جذبوں کو پھر کس نے اُچھالا ہے |
| اِک زندگی دیتا ہے یہ عشق سُنا ہم نے |
| جیتے جی ہمیں ظالم نے مار ہی ڈالا ہے |
| پُر سوز نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھو ناں |
| تنویر مرا حالِ دل دیکھنے والا ہے |
| تنویر روانہ سرگودھا |
معلومات